ماجد صدیقی ۔ غزل نمبر 23
کرے تو اور ہی وہ احتساب کرتا ہے
ذلیل کرتا ہے، بے حد خراب کرتا ہے
سنان و تیر و کماں توڑ دے اُسی پر وہ
ستم کشی کو جسے انتخاب کرتا ہے
دمکتا اور جھلکتا ہے برگِ سبز سے کیوں؟
وہ برگِ زرد سے کیوں اجتناب کرتا ہے
بھلے جھلک نہ دکھائے وہ اپنے پیاروں کو
بُلا کے طُور پہ کیوں لاجواب کرتا ہے
گلوں میں عکس وہ ماجد دکھائے خود اپنے
کلی کلی کو وہی بے نقاب کرتا ہے
ماجد صدیقی